Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
post
Home / Articles / ام المومنین جنابِ خدیجہ کبریٰ (س)

ام المومنین جنابِ خدیجہ کبریٰ (س)

ام المومنین جنابِ خدیجہ کبریٰ (س)

سلسلہ نسب

بی بی خدیجہ (س) کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا۔ آپ کے پدر بزرگوار نے زبردست بہادری کے ساتھ خانہ کعبہ کی حرمت کا دفاع اس وقت کیا جب یمن کے مغرور بادشاہ نے حجرِ اسود کو یمن میں منتقل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت خویلد نے شمشیر ہاتھ میں لے کر قریش کے افراد کی مدد سے دشمن کو ذلت و خواری سے خانہ کعبہ کی چار دیواری سے دور بھگا دیا۔ آپ (س) کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت زائدہ ایک با فضیلت خاتون اور حضرت ابراہیم (ع) کے دین کی پیروتھیں۔

جناب خدیجہ (س) کا تعلق بھی قبیلۂ قریش سے ہے اور آپ (س) کا سلسلۂ نسب والد محترم کی جانب سے تیسری اور والدہ محترمہ کی جانب سے آٹھویں پشت سے خاندانِ پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا ہے۔

القاب

ام المومنین

  وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ

اور ان [رسولِ خدا (ص)]کی ازواج مومنین کی مائیں ہیں۔

(الأحزاب:۶)

ازواج پیمبر (ص) کو قرآن میں ام المومنین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے جن میں قولِ رسول (ص) کے مطابق سب سے برتر و بہتر آپ ہی کو شمار کیاگیاہے۔

(الانوار الساطعہ، ۲۲۶)

صدیقہ

 پیغمبر اکرم (ص) کے ایک زیارت نامہ میں ازواج پر درود و سلام کے موقع پر بی بی خدیجہ (س) کو الصدیقہ کے لقب سے یاد کیاگیاہے۔

(بحارالانوار، ۱۰۰/۱۸۹)

 یہ ایسا اعزاز ہے جو قرآن میں صرف ایک بار جناب مریم (س) کے لیے استعمال ہوا ہے۔

وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ

اور ان [حضرت عیسی(ع)] کی والدہ ایک سچی خاتون تھیں۔

(المائدہ:۷۵)

طاہرہ

    جاہلیت کے زمانے میں آپ کا مشہور ترین لقب طاہرہ تھا کیونکہ آپ ظلمت کے اس دور میں بھی پاکیزہ اور عفیفہ ہونے کے علاوہ جاہلیت کی فرسودہ رسومات اور بتوں کی پرستش سے مبرا تھیں۔

فضائل بزبانِ وحی

 شب معراج سے واپس زمین پر لوٹتے وقت قاصدِ وحی نے پیغمبر اکرم (ص) سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ خداوند اور مجھ جبرئیل کی طرف سے بی بی خدیجہ (س) کو سلام پہنچا دیں۔

جب پیغمبر اکرم (ص) نے خداوندِ عالم کا سلام بی بی خدیجہ (س) کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے جواب میں یوں کہا کہ خدا سلام ہے اور سلامتی اسی کی جانب سے ہے اور تمام سلام اسی کی طرف پلٹتے ہیں اور جبرائیل(ع) پر میرا سلام ہو۔

جب پیغمبر اکرم (ص) کے شہید ہونے کی افواہ بی بی خدیجہ (س) کے کانوں سے ٹکرائی تو آپ (س) نے مکہ کے اطراف کی وادی اور گھاٹی میں اپنے شوہر کو ڈھونڈتے ہوئے اشکوں کا سیلاب جاری کر دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) پر وحی نازل ہوئی کہ آسمان کے فرشتے بی بی خدیجہ کے اشکوں پر اشک بہا رہے ہیں، انہیں اپنے پاس بلا کر میرا سلام عرض کرو اور بشارت دو کہ خداوندِ عالم بھی سلام عرض کررہاہے اور بہشت میں بی بی خدیجہ (س) سے مخصوص ایسا محل ہے جس میں کوئی غم و اندوہ نہ ہوگا۔

 (کفایۃ الطالب، ۳۵۹)

فضائل بزبانِ نبی (ص)

  1. خداوند عالم ہر روز بی بی خدیجہ (س) کے وجود مبارک سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔

(بحارالانوار، ۱۸/۶۴۳)

  • بی بی خدیجہ (س) مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب وادی کفر میں غوطہ ور تھے انہوں نے اس وقت میری تصدیق فرمائی، جب سب انکار کر رہے تھے، انہوں نے اس وقت اپنی تمام ثروت میرے حوالے کی، جب سب دریغ کر رہے تھے اور انہیں کے طفیل خداوند عالم نے مجھے صاحب اولاد بنایا۔

(سیر اعلام النبلاء، ۲/۸۲)

  • جنت چار شہزادیوں کی مشتاق ہے؛ مریم (س)، خدیجہ (س)، آسیہ (س)اور فاطمہ (س)۔

(بحارالانوار، ۴۳/۵)

  • بی بی خدیجہ (س) امہات مومنین میں سب سے بہتر و برتر اور دنیا کی خواتین کی سردار ہیں۔

(الانوارالساطعہ، ۲۲۶)

  • میں خدیجہ کے چاہنے والوں کو چاہتا ہوں۔

(ریاحین الشریعہ، ۲/۲۰۶)

  • میں نے خدا کے لیے بی بی خدیجہ (س) سے بہتر و حق شناس کسی کو نہ پایا۔

(بحارالانوار، ۱۶/۱۰)

  • بی بی مریم (س) اپنے زمانے کی اور بی بی خدیجہ (س) اپنے زمانے کی سب سے برتر خواتین ہیں۔

(بخاری، ۴/۲۰۰)

ازدواج

بی بی خدیجہ (س) کی عمر مبارک شادی کے وقت ۲۵ یا ۲۸ سال تھی اور وہ کنواری تھیں جبکہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم بی بی خدیجہ (س) کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں جو آپ کے زیر کفالت زندگی بسر کر رہی تھیں۔

حضرت ابوطالب (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کی عظمت و شرافت میں فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا اور فرمایا: میرا بھتیجا اور خدیجہ (س) ایک دوسرے سے شادی پر راضی ہیں، ہم بی بی خدیجہ (س) کی درخواست کی خاطر آئے ہیں اور ان کا مہر میں خود ادا کروں گا، رب کعبہ کی قسم وہ بڑی شخصیت کی مالکہ ہیں اور علم و درایت سے بھی کسی سے کم نہیں۔

بی بی خدیجہ (س) کے پدر بزرگوار نے جواب دیا: آپ ہمارے درمیان سب سے عزیز ہیں، پھر خدیجہ (س) کے بارے میں کہا کہ: وہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہیں اور خود صاحبِ اختیار ہیں۔

بی بی خدیجہ (س) کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے کہا: بی بی خدیجہ (س) کا مہر چار ہزار دینا ر ہے۔ حضرت ابوطالب (ع) نے شادمانی سے اسے قبول کیا، لیکن بی بی خدیجہ (س) نے مہر کی رقم اپنے ذمہ لی اور چار ہزار دینار کی شکل میں پوری رقم پیغمبر (ص) کے چچا حضرت عباس کے پاس بھیج دی تاکہ اس رقم کو جشن میں آپ کے پدر کو عطا کیا جائے۔

 جب مہر کی رقم بی بی خدیجہ (س) کی خدمت میں پہنچی تو آپ (س) کے حکم پر ورقہ بن نوفل نے آب زمزم و مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہو کر بلند آواز سے اعلان کیا: ’اے امت عرب! بی بی خدیجہ (س) مہر کی رقم سمیت اموال، غلام اور کنیزوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں آپ کو گواہ بنا رہی ہیں۔‘

دیگر فضائل

پہلی مسلمہ

 بعثت پیغمبر (ص) سے قبل بی بی خدیجہ (س) اپنے جد بزرگوار حضرت ابراہیم کے آئین دین حنیف کی پیرو تھیں۔ پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے پہلے دن آپ نے اسلام لانے کا اعلان کر دیا جیسا کہ تاریخ میں ملتا ہے کہ، مردوں میں سب سے پہلے پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان لانے والے علی (ع) اور خواتین میں بی بی خدیجہ (س) تھیں۔

پہلی نماز گزار

 بی بی خدیجہ (س) اسلام کی سب سے پہلی نماز گزار خاتون ہیں۔ کئی سالوں تک دینِ اسلام کی پابند صرف دو شخصیتیں تھیں، ایک علی (ع) اور دوسری بی بی خدیجہ (س)۔ پیغمبر اکرم (ص) ہر روز پانچ مرتبہ مسجد الحرام میں کعبہ کی جانب رُخ کرکے کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت علی (ع) آپ کے دائیں جانب اور بی بی خدیجہ (س) آپ کے پیچھے کھڑی ہوتی تھیں۔

(خصائص امیرالمومنین، ۴۵)

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
post