امام مہدی (عج)
مختصر تعارف
کنیت | ابوالقاسم | القاب | بقیة اللہ، منتظر، قائم، صاحب الامر، صاحب الزمان، خلفِ صالح | |
والد گرامی | امام حسن عسکری (ع) | والدہ | بی بی نرجس خاتون (س) | |
تاریخ ولادت | جمعہ، 15 شعبان 255 ہجری | آغاز امامت | 260 ہجری | |
جائے ولادت | سامرا | محل ظهور | خانۂ کعبہ، مکہ مکرمہ | |
آغاز غیبت صغری | 260 ہجری | آغاز غیبت کبریٰ | 329 ہجری | |
مدت غیبت صغریٰ | تقریباً 70 سال | مدت غیبت کبریٰ | اللہ بہتر جانتا ہے | |
نواب اربعہ | (۱) عثمان بن سعید عمروی (۲) محمد بن عثمان عمروی | (۳) حسین بن روح نوبختی (۴) علی بن محمد سمری |
ولادت
امام جواد (ع) کی بیٹی اور امام حسن عسکری (ع) کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون (س) بیان کرتی ہیں کہ میرے بھتیجے نے ایک خادم کے ذریعے پیغام بھجوا کر مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: اے پھوپھی جان! آج افطار ہمارے ساتھ کریں کیونکہ آج پندرہ شعبان کی شب ہے اور آج کی رات خداوندِ متعال اپنی حجت کو زمین پر بھیجے گا۔ جناب حکیمہ (س) نے پوچھا کہ کس ماں سے ولادت ہوگی ؟
امام (ع) نے فرمایا: اس بچے کی ولادت نرجس خاتون (س) سے ہو گی۔
میں نے کہا: میری جان آپ پر فدا ہو، میں ان میں حمل کے آثار نہیں دیکھ رہی۔ فرمایا: جو کچھ کہا ہے وہی ہوگا۔
میں نرجس (س) کے پاس گئی اور سلام کیا اور میں نے انہیں خوشخبری سناتے ہوئے کہا: میری بیٹی! آج کی شب خداوندِ متعال تجھے ایسا فرزند عطا کرے گا کہ جو زمین پر اس کی حجت ہو گا۔ اس کے بعد میں نماز عشا پڑھ کر بستر پر چلی گئی۔
آدھی رات ہوئی تو میں نمازِ شب پڑھنے کے لیے بیدار ہوئی اور تعقیبات پڑھنے کے بعد سو گئی اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ بیدار ہوئی۔ اسی دوران نرجس خاتون (س) بھی نمازِ تہجد کے لیے بیدار ہوئیں، میں اپنے کمرے سے باہر آئی اور دیکھا کہ فجر کا وقت ہو چکا ہے،اس وقت میں نے سوچا کہ ابھی تک حجت (عج) کی ولادت کے آثار نظر نہیں آتے۔
یکایک امام عسکری (ع) نے اپنے کمرے سے آواز دی: پھوپھی جان! جلدی نہ کریں، موعود کی ولادت کا وقت قریب ہے۔
میں سورہ سجدہ اور یٰس کی تلاوت میں مشغول ہو گئی۔ میری آنکھوں پر نیند کا ایسا غلبہ ہوا کہ دوبارہ سو گئی۔ جب بیدار ہوئی تو دیکھا کہ نرجس (س) کے ہمراہ ایک نو مولود ہے اور وہ سجدہ میں ہے۔ میں نے مولود کو آغوش میں لیا تو اس کو پاک و پاکیزہ پایا۔ پھر میں امام (ع) کے کہنے پر مولود کو ان کی خدمت میں لے گئی۔ انہوں نے اسے اپنی آغوش میں لیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور بچے سے کہنے لگے: میرے فرزند کچھ تو کہو۔
بچے نے اپنی زبان مبارک سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میرے جد رسولِ خدا (ص) اور میرے دادا امیرالمومنین (ع) ہیں، پھر بقیہ ائمہ کی امامت کی گواہی دی۔
ساتویں دن جب میں امام (ع) کے گھر گئی تو امام (ع) نے اپنے بیٹے کو طلب کیا اور فرمایا: میرے فرزند! مجھ سے بات کرو۔ تو اس نو مولود نے اس آیت کی تلاوت کی:
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے، ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں
اور زمین کا وارث قرار دیں۔
(القصص:5)
کمسنی میں منصب الہٰی
امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کے وقت امام مہدی (عج) کی عمر فقط پانچ سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کم سنی میں ہی امام اور حق و باطل میں تمیز کرنے والا بنایا۔ امام (عج) کا بچپن ہی میں امامت کے منصب پر فائز ہونا ،کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی خدا نے اپنے نمائندوں کو بچپن میں ہی نبوت یا امامت کے منصب پر فائز کیا ہے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت یحییٰ (ع)
يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا
اے یحییٰ! آپ ہماری آسمانی کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور ہم نے انہیں کمسنی و بچپن میں مقام نبوت عطا کیا۔
(مریم:۱۲)
حضرت عیسیٰ (ع)
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا
بچے نے کہا میں اللہ تعالیٰ کا بنده ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے۔
(مریم:۳۰)
امیرالمومنین علی (ع)
جب دعوت ذو العشیرہ میں رسول اکرم (ص) نے امام علی (ع) کو اپنا وصی اور اپنے بعد امام بنایا اور ان کی خلافت کا اعلان فرمایا تو آپ (ع) کی عمر صرف 10 سال تھی۔
امام محمد تقی (ع)
آپ (ع) کی عمر شریف آٹھ سال کی تھی کہ جب آپ (ع) منصب امامت پر فائز ہوئے۔
امام علی نقی (ع)
آپ (ع) 9 سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔
امام زمانہ(عج) کے لیے تین سو سے زیادہ القاب بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک ان کی شخصیت اور اخلاقی و روحانی خصوصیات کے ایک خاص پہلو کی نشاندہی کرتا ہے؛ منصور، قائم، حجت اللہ، صاحب الامر، خلف صالح، بقیۃ اللہ، منتقم، موعود، خاتم الاوصیا، داعی، باسط، ثائر، صاحب الزمان، ولی اللہ، خلیفۂ رحمان، برہان، موعود، ولی عصر، سید، منتظر اور ان سب میں مشہور لقب’مہدی‘ ہے۔
غیبت صغریٰ
غیبت صغریٰ میں امام زمانہ (عج) کے چار نائب تھے۔
عثمان بن سعید عمری: ۲۶۰ ھ سے ۲۸۰ھ تک | محمد بن عثمان عمری: ۲۸۰ ھ سے ۳۰۵ تک |
حسین بن روح نوبختی : ۳۰۵ ھ سے ۳۲۶ ھ تک | علی بن محمد سمری: ۳۲۶ ھ سے ۳۲۹ ھ تک |
غیبت کبریٰ
غیبت صغری کے بعد غیبت کبری کا زمانہ شروع ہوا یعنی اب کسی مخصوص فرد کو نامزد کرنے کے بجائے چند متعین صفات کے ذریعے اپنی نیابت عامہ کا تعین کیا جیسا کہ شیخ مفید کی خط میں فرمایا: پیش آنے والے واقعات میں تم ہماری احادیث بیان کرنے والوں کی طرف رجوع کرنا، چونکہ یہ تم پر بہترین حجت ہیں اور میں تم پر اللہ کی حجت ہوں۔
اسی حدیث کی بنا پر شیعہ فقہا کو نائب امام کہتے ہیں۔
غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
معرفتِ امامِ زمانہ (عج) | قرآن و اہلبیت (ع) کی اطاعت |
تعجیل ظہور کی دعا | انتظار |
اشتیاق زیارت | دعا برائے سلامتی امام زمانہ (عج) |
امام زمانہ (عج) کی سلامتی کے لیے صدقہ دینا | امام (عج) کے نام پر احتراما کھڑے ہو جانا |
امام (عج) کی نیابت میں مستحبات انجام دینا | حضرت مہدی (عج) کی زیارت پڑھنا |
نماز صبح کے بعد دعا عہد پڑھنا | استغفار کرنا |
علما(جاننے والے) اپنے علم کو ظاہر کریں | جھوٹے دعویداروں کا جھٹلانا |
ظہور کا وقت معین نہ کرنا | خمس ،مال امام (عج) کی ادائیگی |
ایمان پر ثابت قدم رہنا | مصیبتو ں کو برداشت کرنا |
علامات ظہور
ظہور کی علامات روایات میں دو طرح کی وارد ہوئی ہیں حتمی و غیر حتمی۔
مولا امیرالمومنین (ع):
وہ نشانیاں جو قائم سے پہلے ظاہر ہوں گی اور جن کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ؛ خروج سفیانی، زمین کا دھنس جانا، قتل نفس ذکیہ، ندائے آسمانی اور یمانی کا خروج۔