امام حسن مجتبیٰ (ع)
مختصر تعارف
کنیت | ابو محمد، ابوالقاسم | القاب | مجتبیٰ، سید، زکی، سبط الرسول، سبطِ اکبر | |
والد گرامی | امام علی (ع) | والدہ ماجدہ | بی بی فاطمہ زہرا (س) | |
تاریخ ولادت | ۱۵ رمضان المبارک ۳ ہجری | تاریخ شہادت | ۲۸ صفر ۵۰ہجری | |
جائے ولادت | مدینہ منورہ | مدفن | جنت البقيع، مدینہ منورہ | |
عمر مبارک | 48سال | مدت امامت | 10 سال |
بچپن
پیغمبر اکرم (ص) نے آپ (ع) کے کان میں اذان دی اور ولادت کے ساتویں روز ایک گوسفند کو ذبح کر کے آپ (ع) کا عقیقہ کیا گیا۔ آپ (ع) نے کم و بیش آٹھ سال اپنے نانا رسول خدا (ص) کی زندگی کو درک کیا۔
آپ (ع) کمسنی میں بھی اپنے نانا رسول خدا (ص) کی مجالس میں شرکت فرماتے اور جو کچھ حضور (ص) پر وحی ہوتی اس بارے میں اپنی والدہ بی بی فاطمہ زہرا (س) کو مطلع کرتے تھے۔ آپ (ع) شکل و شمائل اور سیرت میں رسول خدا (ص) سے بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے۔
فضائل قرآنی
آیت اطعام
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
یہ اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔
(الدہر:۸)
آيت مودت
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ
آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا مگر اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔
(الشوری:۲۳)
آیت مباہلہ
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَكُمْ
وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
پیغمبر! علم کے آ جانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں، ان سے کہہ دیجیے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،
اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں
اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
(آل عمران:61)
آیه تطہیر
إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیرًا
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہلبیت (ع)! تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے
جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
(الاحزاب:۳۳)
قرۃعین الرسول (ص)
پیغمبر اکرم (ص) آپ (ع) سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) امام حسن (ع) کو اپنے کاندھوں پر سوار کرتے تھے۔ بعض اوقات جب پیغمبر اکرم (ص) نماز جماعت میں سجدہ میں چلے جاتے تو امام حسن (ع) حضور (ص) کی پشت پر سوار ہوتے تھے اور پیغمبر اکرم (ص) اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھاتے تھے جب تک امام حسن (ع) خود پشت سے نیچے نہ اتر آتے، جب صحابہ سجدوں کے طولانی ہونے کے بارے میں پوچھتے تھے تو حضور (ص) فرماتے تھے میں چاہتا تھا کہ حسن (ع) خود اپنی مرضی سے میری پشت سے نیچے اتر آئے۔
پیغمبر اکرم (ص) آپ (ع) کے بارے میں فرماتے تھے: وہ بہشت کے جوانوں کے سردار اور میری امت پر خدا کی حجت ہیں … جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہے اور جو اس سے رو گردانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
اخلاق حسنہ
عبادت
جب امام حسن (ع) وضو کرنے لگتے تو آپ (ع) کے ہاتھ پیر لرزنے لگتے اور آپ (ع) کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا۔ آپ (ع) نے 25 مرتبہ پیدل حج ادا کیے حالانکہ بہترین اونٹ آپ (ع) کے پاس سواری کے لیے موجود تھے آپ (ع) فرماتے تھے مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ اس سے ملاقات کروں حالانکہ اس کے گھر کی طرف قدم نہ اٹھایا ہو۔
حکم و بردباری
آپ (ع) کے دشمن مروان بن حکم سے جب امام حسن (ع) کے بارے میں کسی نے پوچھا تو کہنے لگا کہ یہ وہ عظیم شخصیت تھی جن کی بردباری پہاڑ کی مانند تھی۔
ایک شامی نے جب امام حسن (ع) کو دیکھا تو آپ (ع) کی شان میں گستاخی کی۔ جب وہ شخص خاموش ہوا تو آپ (ع) نے اسے سلام کیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: لگتا ہے کہ تم اس شہر میں اجنبی ہو۔ تمہاری جو بھی خواہش ہو میں اسے پورا کروں گا۔ اس پر وہ شخص روتے ہوئے کہنے لگا خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپرد کرے۔
سخاوت
آپ (ع) سخاوت اور لوگوں کی مدد کرنے میں شہرت رکھتے تھے۔آپ (ع) کریم اور جواد کے نام سے مشہور تھے۔ آپ (ع) نے دو دفعہ اپنی پوری جمع پونجی خدا کی راہ میں بخش دی اور تین دفعہ اپنی جائیداد کا نصف حصہ غریبوں میں تقسیم فرمایا۔ شام کے سفر کے دوران معاویہ نے بہت سارا مال آپ (ع) کی خدمت میں پیش کیا جب آپ (ع) معاویہ کے پاس سے باہر تشریف لائے تو ایک خادم نے آپ (ع) کے جوتے کی مرمت کی۔ امام (ع) نے وہ سارا مال اس خادم کو بخش دیا۔
امام حسن (ع) نے ایک دفعہ کسی شخص کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ’خدایا مجھے دس ہزار درہم عطا فرما، اس موقع پر آپ (ع) گھر تشریف لے گئے اور مذکورہ مبلغ اس شخص کے لیے ارسال فرمایا۔ آپ (ع) کی اسی سخاوت کی وجہ سے آپ (ع) کو’ کریم اہل بیت‘ کا لقب دیا گیا تھا۔
حاجت روائی
آپ (ع) دوسروں کی حاجت روائی کیلیے اعتکاف اور طواف کو نا تمام چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور اس کام کی علت بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرم (ع) کی ایک حدیث کی طرف اشارہ فرماتے تھے جس میں آپ (ع) نے فرمایا: جو شخص کسی مومن بھائی کی ضروریات پوری کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو سالوں سال خدا کی عبادت میں گزارے۔
عاجزی و فروتنی
ایک دن مسکینوں کے قریب سے آپ (ع) کا گذر ہوا جو خشک روٹی کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ جب انہوں نے آپ (ع) کو دیکھا تو آپ (ع) کو ساتھ بیٹھ کر کھانے کی دعوت دی ۔ آپ (ع) گھوڑے سے نیچے آئے اور ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ساتھ غذا تناول فرمائی اور سب سیر ہو گئے۔ اس کے بعد ان مسکینوں کو اپنے دولت سرا آنے کی دعوت دی اور انہیں کھانا اور لباس عطا فرمایا۔
عفو و در گزر
ایک مرتبہ آپ (ع) کے کسی خادم سے کوئی خطا سر زد ہونے کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق قرار پایا۔ اس خادم نے امام حسن (ع) سے کہا:’ و العافين عن الناس اس پر آپ (ع) نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ خادم نے مزید کہا:’و الله يحب المحسنین’امام حسن مجتبی (ع) نے فرمایا: میں نے تمہیں خدا کی راہ میں آزاد کر دیااور تمہاری مزدوری کے دو برابر تمہیں بخش دیتا ہوں۔
دور امامت
خلافت سے پہلے
امام حسن مجتبی (ع) امام علی (ع) کے چار سالہ دور خلافت میں شروع سے لے کر آخر تک اپنے والد گرامی کے ساتھ رہے۔ اور جنگ جمل اور جنگ صفین اور جنگ نہروان ان سب جنگوں میں شریک ہوئے ۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام علی (ع) نے معاویہ کے ساتھ مقابلہ کیلیے امام حسن (ع) کو فوج کے دس ہزار افراد پر مشتمل لشکر کا سپہ سالارمقرر فرمایا ۔
خلافت کا مختصر دور
۲۱ رمضان جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علی (ع) نے مسجد میں ایک خطبہ دیا جس میں اپنے والد گرامی کے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنے ذاتی کمالات نیز اہل بیت (ع) کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔ آپ (ع) کی تقریر کے بعد عبد اللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے: اپنے نبی(ص) کے بیٹے اور اپنے امام (ع) کے جانشین کی بیعت کریں۔ اس کے بعد لوگوں نے آپ (ع) کی بیعت کی۔ آپ (ع) کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے۔
سازش
شکست کے بعد معاویہ نے رات کی تاریخی میں عبید اللہ کو یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن علی (ع) نے مجھے صلح کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے نتیجے میں وہ خلافت میرے حوالے کریں گے، اس کے ساتھ معاویہ نے عبید اللہ کو دس لاکھ درہم دینے کا بھی وعدہ دیا یوں عبید اللہ معاویہ کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بعد قیس بن سعد نے لشکر کی کمان سنبھالی ۔ عبید اللہ کے معاویہ کی طرف جانے کے بعد معاویہ اس خیال سے کہ اب امام حسن (ع) کا لشکر کمزور ہو گیا ہے، ان پر بھر پور حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن امام (ع) کے سپاہیوں نے قیس کی قیادت میں شامیوں کو شکست دی۔ معاویہ نے قیس کو بھی لالچ دے کر راستے سے ہٹانا چاہا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔
صلح کی شرائط
أ. حکومت معاویہ کے پاس رہے گی بشر طیکہ وہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو گا۔
ب. معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا۔
ج. شیعیان حیدر کرار (ع) سمیت تمام لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
د. معاویہ خود کو امیرالمومنین نہیں کہے گا اس کے بعد شہادتوں کا قیام نہیں ہو گا۔
ه. امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) پر سب وشتم کا سلسلہ بند ہو گا۔
و. کو فہ کا بیت المال امام حسن (ع) کے زیر نگرانی ہو گا۔
ز. اہل بیت (ع) کے کسی فرد کو اذیت نہیں دی جائے گی۔
صلح کی مخالفت
معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: میں اپنی طرف سے رکھی گئی تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا ان سب کی خلاف ورزی کروں گا۔ میں نے تم لوگوں سے نماز، روزہ اور حج کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کی بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلیے میں نے جنگ کی ہے۔
مدینہ واپسی
امام حسن (ع) معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کوفہ کے بعض شیعوں کی طرف سے کوفہ میں رہنے کی درخواست کے باوجود مدینہ واپس تشریف لے گئے۔ اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔
شہادت
جب معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی جانشینی کے لیے لوگوں سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا تو اس نے جعدہ بنت اشعث بن قیس (زوجہ امام حسن (ع) ) کی طرف ایک لاکھ درہم بھیجے اور اسے یہ وعدہ بھی دیا کہ حسن ابن علی (ع) کو مسموم کرنے کے عوض اس کی یزید لعین کے ساتھ شادی کی جائیگی۔ اس بد بخت نے امام (ع) کو زہر دے دیا جسکی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ امام حسن مجتبٰی (ع) کی شہادت پر پورا شہر مدینہ گریہ وزاری اور غم و اندوہ میں ڈوب گیا۔ جس وقت آپ کو قبرستان بقیع میں دفن کیا جا رہا تھا تو اس وقت بقیع لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا اورمدینہ کے بازار 7 دن تک بند رہے۔
امام حسن (ع) نے اپنے بھائی امام حسین (ع) کو وصیت کی تھی کہ آپ (ع) کو اپنے نانا رسول خدا کے پہلو میں دفن کیاجائے۔ امام حسن بن علی (ع) نے سفارش کی تھی کہ ان کی تشیع اور دفن کے دوران کسی بھی جھگڑے اور فساد سے پر ہیز کیا جائے تاکہ کسی کا ناحق خون نہ بہایا جائے۔ جب بنی ہاشم امام حسن مجتبی (ع) کے تابوت کو قبر پیغمبر (ص) کی طرف لے گئے تو مروان نے بنی امیہ کے بعض دوسرے افراد کے ساتھ اسلحہ اٹھا کر ان کا راستہ روک لیا تا کہ آپ (ع) کو روضہ نبی (ص) میں نانا (ص)کے پہلو میں دفن نہ ہونے دیا جائے۔ ابن شہر آشوب کی روایت میں ملتا ہے کہ بنی امیہ نے امام حسن مجتبی (ع) کے جنازے کی طرف تیر چلائے۔ امام حسن (ع) کے جنازے سے ۷۰ تیر نکالے گئے۔ امام حسین (ع) نے اپنے بھائی امام حسن (ع) کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے جنگ نہ کی اور امام حسن (ع) کو جنت البقیع میں دفن کیا۔