فضیلتِ ماہِ رمضان المبارک
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ
ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں پس تم میں سے جو بھی اس مہینے کو پالے اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔
(البقره:۱۸۵)
خطبۂ شعبانیہ
شعبان المعظم کے مہینے کے آخری دنوں میں پیغمبر خدا (ص)نے صحابہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رمضان المبارک کی عظمت اور اہمیت سے آگاہ کیا اور اس کے دن و رات میں مسلمانوں کے وظیفے کو بیان فرمایا۔ اس خطبے کو امام رضا (ع) نے اپنے آبا و اجداد سے نقل کرتے ہوئے امیرالمومنین امام علی (ع) سے روایت کیا ہے۔
’اے لوگو! خدا کا برکت ، رحمت اور مغفرت سے بھر پور مہینہ آ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن تمام دنوں سے، اس کی راتیں تمام راتوں سے اور اس کی گھڑیاں دیگر گھڑیوں سے افضل ہیں۔
یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں تمہیں ضیافتِ الہٰی کی طرف دعوت دی گئی ہے اور اس ماہ میں تمہیں خدا کی کرامت کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح، سونا عبادت، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں پس تم نیک نیتی اور پاکیزہ دل کے ساتھ خدا سے طلب کرو کہ تمہیں اس مہینے کے روزے رکھنے اور قرآن پاک کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے ، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفران الہٰی سے محروم رہا۔
اس ماہ کی بھوک و پیاس سے قیامت کے دن کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔ فقرا اور مساکین کو صدقہ دو۔ اپنے بزرگوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت اور خونی رشتہ داروں سے نبھایا کرو۔ اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو اور اپنی نگاہوں اور کانوں کو ان چیزوں سے بچاؤ جنہیں دیکھنا اور سننا جائز نہیں۔ لوگوں کے یتیم بچوں سے ہمدردی کرو تاکہ تمہارے ایتام کے ساتھ مہربانی کی جائے۔
اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور اوقاتِ نماز میں اپنے ہاتھوں کو اس کی بارگاہ میں بلند کرو کیونکہ یہ بہترین اوقات ہیں کہ جن میں خدائے عزّ و جلّ اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ کرتا ہے، اُس سے مناجات کریں تو جواب دیتا ہے، بلائیں تو لبیک کہتا ہے، طلب کریں تو عطا کرتا ہے اور اسے پکاریں تو جواب دیتا ہے۔ اے لوگو! بے شک تمہارے نفس تمہارے اعمال کے گروی ہیں پس استغفار کے ذریعے انہیں رہائی دلاؤ، تمہاری پشت گناہوں کے بوجھ سے سنگین ہے پس لمبے سجود کے ذریعے انہیں ہلکا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ نمازیوں اور ساجدین کو عذاب نہ کرے گا اور نہ ہی آتشِ جہنم سے ڈرائے گا اُس دن جب سب کے سب عالمین کے پروردگار کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے۔‘
’اے لوگو! تم میں سے جو کوئی اس ماہ میں کسی مومن روزہ دار کو افطار کرائے تو خدا کے نزدیک ایک غلام کی آزادی (کے مترادف) اور اس کے گذشتہ گناہوں کی مغفرت ہے۔‘ پوچھا گیا: ’یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اس کی قدرت نہیں رکھتا؟ فرمایا: ’ آتش جہنم سے بچو گرچہ آدھی کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو۔‘
’اے لوگو! تم میں سے جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا کرے گا تو اس شخص کے لیے پل صراط سے عبور کی سند ہے کہ جس روز (لوگوں کے) قدم لڑکھڑائیں گے، جو کوئی اس ماہ میں اپنے ماتحت سے نرمی (یا اس کے ذمے بوجھ کو کم) کرے گا تو خدا اس کے حساب میں نرمی کرے گا اور جو اس مہینے میں اپنے شر کو(دوسروں سے) روکے رہے تو خدا سے ملاقات کے دن خود خدا اس کو اپنے غیض و غضب سے محفوظ رکھے گا۔ اگر کوئی اس ماہ میں کسی یتیم پر احسان کرے گا تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس پر احسان کرے گا۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے خونی رشتہ داروں سے نبھائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے متصل کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے قطع رابطہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی ملاقات کے روز اس سے اپنی رحمت کو منقطع کر دے گا۔
جو کوئی اس مہینے میں مستحب نماز بجا لائے گا تو اس کے لیے جہنم سے نجات کا پروانہ لکھ دیا جائے گا، جو شخص اس ماہ میں ایک فرض نماز ادا کرے تو اس کے لیے ایسے فرد کا ثواب ہے دوسرے مہینوں میں ستر واجب نمازیں پڑھے اور جو اس ماہ میں مجھ پر کثرت سے درود بھیجے گا اللہ اس کے اعمال کو سنگین کر دے گا کہ جس دن لوگوں کے اعمال کا وزن ہلکا ہوگا اور جو اس مہینے میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا، اس کے لیے ایسے شخص کے برابر اجر ہے جو دوسرے مہینوں میں ختمِ قرآن کرے۔
اے لوگو! یقیناً اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اپنے پروردگار سے مانگو کہ اس کو تم پر بند نہ کرے، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پس اپنے رب سے طلب کرو کہ تم پر انہیں نہ کھولے اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں پس اپنے پالنے والے سے درخواست کرو کہ انہیں تم پر مسلط نہ کرے۔‘
امیرالمومنین (ع) ـ فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور سوال کیا: ’یا رسول اللہ (ص)! اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کیا ہے؟‘ فرمایا: ’یا ابوالحسن (ع)! اس مہینے میں بہترین عمل محرماتِ الہٰی سے پرہیز ہے۔‘
پھر آنحضرت (ص) گریہ فرمانے لگے تو میں نے پوچھا، ’یا رسول اللہ (ص)! کس چیز نے آپ کو رُلا دیا؟‘ فرمایا: ’یا علی (ع)! میں اس (ظلم) کی وجہ سے رو رہا ہوں کہ جو اس ماہ میں تم پر روا رکھا جائے گا گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے رب کی خاطر نماز میں مشغول ہو اس وقت اولین و آخرین کا شقی ترین انسان، قاتل ناقہ صالح کا بھائی (ہمزاد) تمہارے سر پر ایک وار کرے گا جس سے تمہاری داڑھی(خون سے) خضاب آلود ہو جائے گی۔‘ امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’یا رسول اللہ (ص)! کیا اس وقت میرا دین محفوظ ہوگا؟‘ فرمایا: ’بالکل، تمہارا دین محفوظ ہوگا۔‘
اس کے بعد فرمایا: ’یا علی (ع)! جس نے تجھے قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا، جس نے تیرے ساتھ دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے، جو تجھے سب و شتم کرے تو اس نے مجھے سب و شتم کیا کیونکہ تو میرے لیے ایسا ہی ہے جیسے میرا نفس، تیری روح میری روح سے اور تمہاری طینت میری طینت سے ہے۔ بے شک خدا نے ہم دونوں کو خلق کیا اور ہمارا انتخاب کیا، مجھے نبوت اور تجھے امامت کے لیے منتخب کیا پس اگر کوئی تیری امامت کا انکار کرے تو اس نے میری نبوت کا انکار کیا۔
یا علی (ع)! تم میرے وصی، میرے بچوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو، میری زندگی اور میری موت کے بعد میری امت پر میرے خلیفہ ہو، تمہارا حکم میرا حکم اور تمہارا روکنا میرا روکنا ہے۔
اُس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا اور مجھے انسانوں میں سے سب سے بہتر قرار دیا، یقیناً تم خلقِ خدا پر اس کی حجت، اس کے اسرار کے امین اور اس کے بندوں پر اس کے خلیفہ ہو۔‘
(الأمالي للصدوق، ۹۶)