قرآن میں غور و فکر
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَیْكَ مُبَارَكٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِهِ وَلِیَتَذَكَّرَ أُولُوا الْأَلْبَابِ
یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں
اور صاحبانِ عقل نصیحت حاصل کریں۔
(ص:۲۹)
امیرالمومنین امام على (ع):
لوگو! آگاہ ہوجاؤ، جس تلاوت میں غور و فکر نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں۔
(معانی الاخبار، ۲۲۶)
امیرالمومنین امام على (ع):
قرآن کی آیات پر غور و فکر کرو اور اس سے عبرت پکڑو کیونکہ یہ بلیغ ترین عبرت کا سامان ہیں۔
(شرح غرر الحكم، ۳/۲۸۴)
امیرالمومنین امام على (ع):
قرآن کو سمجھو اور غور و فکر کرو کیونکہ یہ دلوں کی بہار ہے۔
(نهج البلاغہ، خطبہ ۱۱۰)
امام علی زین العابدین (ع):
قرآن کی آیات علم کے خزینے ہیں لہٰذا جب کبھی بھی کوئی خزینہ کھل جائے تو تمہیں دیکھنا چاہیے کہ اس میں کیا ہے۔
(عدة الداعی، ۲۶۸)
امام جعفر صادق (ع):
بے شک قرآن ہدایت کی مشکل اور اندھیروں کو دور کرنے والا چراغ ہے لہٰذا حق کے متلاشیوں کو چاہیے کہ اپنی آنکھوں کو کھول کر نور حاصل کرنے کے لیے دل کی بصیرت سے کام لیں کیونکہ غور و فکر کرنا بصیرت رکھنے والے دلوں کے لیے زندگی کا باعث ہے۔
(الكافی، ۲/۶۰۰)