جناب فاطمہ زہرا (س) کی چالیس احادیث
1. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: ساری تعریفیں خدا کے لیے ہیں اس کی نعمتوں پر، اور شکر و سپاس ہے ان چیزوں پر جو اس نے الہام کیا، اور حمد و ثنا ہے ان کثیر مواہب اور بے شمار عطایا پر جو اس نے اپنے بندوں کو بے سوال کیے دیا، اور ان کامل نعمتوں پر جو سب کو عطا کیا اور پے درپے ہم کو دیتا رہا، ایسی نعمتیں جو عدرا قابل شمار نہیں ہیں، اور ان کی زیادتی جبران ناپزیر ہیں۔ ان کے انتہا کا تصور اور اک بشر سے خارج ہے اس نے اپنے بندوں کو پے درپے نعمتوں کو دینے کے لیے ان کو شکر کی دعوت دی۔ اور حمد و ستائش کے دروازے ان کے لیے کھول دئیے تاکہ وہ لوگ اس کے ذریعہ اپنی نعمتوں کو بڑی اور زیادہ کر سکیں۔ (اعیان الشیعہ، ج۱ ص۳۱۵)
2. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک له ، ایک ایسا کلمہ ہے جس کی حقیقت خدا نے اخلاص کو قرار دیا ہے اور دلوں کو اس کے لیے مرکز اتصال قرار دیا ہے اس خدا کی صفت یہ ہے کہ اس کو آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا زبانیں اس کی صفت بیان کرنے سے عاجز ہیں، بشری اور اک اس کے تصور چگونگی سے عاجز ہے۔ (اعیان الشیعہ، ج۱ ص۳۱۵)
3. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوند عالم نے تمام چیزوں کو کسی ایسی شے کے بغیر جو پہلے سے رہی ہو، پیدا کیا، کسی کے مثالوں کی اقتدا و پیروی کیے بغیر اپنی قدرت کاملہ سے تمام اشیا کو لباس وجود پہنایا اور ان کو اپنی قدرت سے خلق فرمایا اور ان کی تخلیق کی احتیاج نہ رکھتے ہوئے اپنی مشیت سے ان کو کتم عدم سے نکال کر منصہ شہود پرلے آیا، نیز ان کی صورت نگاری میں بھی اس کو کوئی فائدہ نہیں تھا وہ تو حضرت اپنی حکمت کے اثبات کے لیے اور اپنی اطاعت پر متنبہ کرنے کے لیے اور اپنی قدرت کا اظہار کرنے کے لیے اور اپنی عبادت کی دعوت دینے کے لیے اور اپنی دعوت کو پر شکوہ بنانے کے لیے (اشیا کو خلق فرمایا) (اعیان الشیعہ، ج۱ ص۳۱۵)
4. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے اپنی طاعت پر ثواب اور معصیت پر عذاب (اس لیے) مقرر کیا ہے تاکہ اپنے بندوں کو عذاب و سزا سے باز رکھے اور بہشت کی طرف لے جائے۔ (اعیان الشیعہ، ج۱ ص۳۱۶)
5. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے باپ محمد (ص) خدا کے بندہ اور رسول ہیں، اور خداوندِ عالم نے ان کو مبعوث برسالت کرنے سے پہلے منتخب کیا اور اختیار کیا اور ان کو مجتبیٰ بنانے سے پہلے ان کا نام رکھا اور (رسول بنا کر) بھیجنے سے پہلے ان کو مصطفٰی بنایا جب کہ تمام مخلوق پردہائے غیب کے نیچے، اور بیم و ہراس کے نہاں خانوں میں چھپی ہوئی تھی۔ اور عدم کے آخری حد سے مقرون تھی، اس لیے کہ خدا امور کے انجام سے، زمانہ کے حوادث و جریان امور سے مطلع تھا اور محمد (ص) کو اپنے امر کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ اس کے امر کا اجرا کریں اور اس کے حتمی مقدرات کو جامۂ عمل پہنائیں۔ (اعیان الشیعہ، ج۱ ص۳۱۶)
6. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے امتوں کو مختلف دینوں میں (اور فرقوں میں) بٹے ہوئے آتش پر ستی کرتے ہوئے، بت پرستی کرے ہوئے (وجود خدا کی دلیلوں کو دیکھتے ہوئے) خدا کا منکر دیکھا تو میرے باپ محمد (ص) کے ذریعہ تاریکیوں کو دور کیا دلوں کے (پردہائے) تاریکی کو چاک کر دیا آنکھوں سے ان کے اندھے پن کو ختم کر دیا۔ (اعیان الشیعہ، ج۱ ص۳۱۶)
7. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: لوگو ں کے درمیان میرے باپ محمد (ص) ہدایت کے لیے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دی اورو اندھے پن سے روشنی کی طرف رہنمائی کی مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی صراطِ مسقتیم کی طرف دعوت دی۔
(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
8. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: اے خدا کے بندو! تم ہی خدا کے امر ونہی کو برپا کرنے والے ہو اور خدا کے دین و وحی کے حامل ہو، اپنے نفسوں پر خدا کے امین ہو، امتوں کی طرف اس کے دین کو پہونچانے والے ہو۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
9. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: اے خدا کے بندو متوجہ ہو! خدا کی طرف سے حقیقی لیڈر تمہارے درمیان ہے اور اس سے پہلے تم سے عہد وپیمان باندھاجاچکا ہے اور باقی ماندہ نبوت ہے جو تمہاری رہبری کے لئے تم پر معین کیاگیا ہے اور (وہ رہبر) خداکی بولتی کتاب ، قرآن صادق، نورِساطع اور ضیاء الامع ہے، اس کے حقائق واضح ، اس کے اسرار منکشف ، اس کے ظواہر روشن، اس کے پیرو قابل غبطۃ ہیں۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
10. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: کتابِ خدا اپنے پیروکاروں کو رضائے الٰہی کی طرف لے جانے والی ہے، اس کو کان دھر کے سننا نجات تک پہنونچانے والا ہے، اسی قرآن کے ذریعہ خدا کی روشن دلیلوں کو حاصل کیا جاسکتاہے نیز اس کے عزائم مفسرہ ڈرانے والے محرمات، واضح دلائل کافی (واوفی) براھین، مندوب فضائل، مرخص عطایا، واجب شرائع بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
11. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے ایمان کو تمہارے لئے شرک سے (اور کفرسے) پاکیزگی قراردی۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
12. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے نماز کو تمہارے لئے تکبر سے دوری قرار دیا۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
13. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے تمہاری روح کو پاکیزگی اور رزق کی زیادتی کے زکات قرار دی ہے۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
14. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے تمہارے اخلاص کی استواری وبرقراری کے لئے روزہ قراردیا۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
15. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نےدین کو مضبوط کرنے کے لئے حج قرار دیا۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
16. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے دلوں کو نزدیک کرنے کے لئے عدالت قرار دیا۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
17. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے (خاندانِ رسالت کی) اطاعت کو معاشرے کے نظام کی حفاظت کے لئے اور امامت (آئمہ معصومینؑ) کو اختلاف سے بچانے کے لئے قراردیا ہے۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
18. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے صبرواستقامت کو جزاحاصل کرنے کے لئے قراردیاہے۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
19. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے جہاد کو اسلام کے لئے سببِ عزت وشکوہ اور کافروں ومنافقوں کے لئے سببِ ذلت ورسوائی قراردیاہے۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
20. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے امربمعروف ونہی ازمنکر کو معاشرے کی اصلاح کے لئے قراردیاہے۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
21. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: پروردگارِ عالم نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کو اپنی ناراضگی کے لئے ڈھال بنایا ہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
22. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے صلہ رحم کو سبب بلندی وطولِ عمر قرار دیاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
23. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے قصاص کو حفاظتِ خون کا ذریعہ قراردیاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
24. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے وفائے نذر کو مغفرت کا ذریعہ قراردیاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
25. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: ہروزن وپیمانہ کوصحیح ناپ تول سےاستعمال کو خدا نے کم فروشی سے روکنے کا ذریعہ قراردیاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
26. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نےرجس (کثافتوں) سے دوری کے لئے شراب خوری سے روکاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
27. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے کسی پر عیب لگانے سے ممانعت کو لعنت کا حجاب قراردیاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
28. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے ترکِ چوری کو عفت وپاکیزگی کے لئے معین کیاہے۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
29. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے شرک کو اس لئے روک دیاتاکہ سب لوگ نہایت خلوص سے عبادت کرسکیں۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
30. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: لوگو! تم ہی میں سے (ہمارا) ایک رسول ؐ تمہارے پاس آچکا ہے(جس کی شفقت کی یہ حالت ہے کہ) اس پر شاق ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ اور اسے تمہاری بہبودی کا بہت خیال ہے ۔ ایمان داروں پر بے حد شفیق اور مہربان ہے۔ (سورہ توبہ آیت 127) اگر تم اس کی نسبت دیکھو اور پہچانو تو یہ رسولؐ میرا باپ ہے نہ کہ تم عورتوں میں سے کسی کا (باپ ہے) اور یہ رسولؐ میرے چچازاد کا بھائی ہے نہ کہ تم لوگوں میں سے کسی مرد کابھائی ہےاور اس کی طرف میری کتنی اچھی نسبت ہے۔ میراباپ کھل کر ڈرانے والا، مشرکوں سے اعراض کرنے والا ، ان کے بڑوں کو قتل کرنے والا، غم وغصہ کو پی جانے والا، لوگوں کوحکمت اور اچھے موعظۃ سے خدا کی طرف بلانے والا، بتوں کو توڑنے والا، مشرکوں کے شیرازے کو بکھیرنے والا تھا یہاں تک کہ وہ لوگ شکست کھاگئے اور منہ موڑ کر بھاگے اور شب نے اپنا بستر باندھا، صبح کا چہرہ نمودار ہوا، دین کا لیڈر بولنے لگا، شیطانوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں، نفاق کے ٹکڑے اڑادئیے، کفروشقاق کی گرہیں کھول دیں، نورانی چہرے والوں اور بھوکوں کوکلمہ اخلاص سمجھادیا۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
31. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: تم سب جہنم کے کنارے تھے، ہرشرابی کی شراب پینے کی جگہ تھے، ہر حریص (ولالچی) کے لئے لقمہ تھے، ہر (متلاشئ) آتش کے لئے چنگاری تھے، ہر ایک کے پیروں تلے روندے جاتے تھے گڑھوں میں جمع ہوا (گندا) پانی تم پیتے تھے، درختوں کے پتے، بیابانوں کی گھاس تمہاری غذا تھی تم اتنے ذلیل وخوار تھے کہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے ڈرتے تھے کہ کہیں تم کو اچک نہ لے جائیں پس خدا نے میرے باپ محمدؐ کے ذریعہ تم کو ان ذلتوں سے نجات دی حالانکہ آنحضرتؐ ہمیشہ بیباک اور بھیڑیوں کی طرح بھوکے عربوں اور سرکش یہودونصاریٰ سے مسلسل نبردآزما رہاکرتے تھے یہ لوگ جب بھی آتشِ جنگ بھڑکاتے تھے خدا اس کو بجھادیتاتھا۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۱۶)
32. امام حسنؑ فرماتے ہیں: میں نے اپنی ماں فاطمہ زہراؑ کو شبِ جمعہ ، رات بھر سفیدہ سحر نمودار ہونے تک نماز پڑھتے دیکھا اور پوری رات صرف مومنین ومومنات کا نام لے کر کثرت سے دعا کرتے ہوئے سنتارہا، اور اس درمیان اپنے لئے کوئی دعا نہیں فرمائی ، میں نے عرض کیا: مادرِ گرامی جس طرح آپ دوسروں کے لئے دعا کررہی ہیں اپنے لئے کیوں نہیں کرتیں ؟ فرمایا: بیٹا پہلے پڑوس والے پھر گھر والے! (بیت الاحزان، ص۲۲)
33. رسولِؐ خدا نے جناب فاطمہؑ سے پوچھا: عورت کے لئے سب سے بہتر کیاہے؟ معصومہ ؑ نے جواب دیا: نہ وہ کسی نامحرم مرد کودیکھے اور نہ کوئی نامحرم مرد اس کو دیکھے۔ (بیت الاحزان، ص۲۲)
34. ایک مرتبہ ایک عورت حضرت فاطمہ زہرا(س) کے پاس آکر بولی : میری ماں بہت بوڑھی ہے، کچھ نماز کے مسائل ان کو نہیں معلوم انہیں معلوم کرنے کے لئے مجھے آپؑ کے پاس بھیجا ہے جناب فاطمہ ؑ نے فرمایا: ہاں ہاں پوچھئے! اس نے سوال کیا، حضرت فاطمہؑ نے جواب دیا، اس نے پھر دوسرا سوال کیا، جناب فاطمہؑ نے اس کا (بھی) جواب دیا پھر اس نے تیسرا سوال کیا، حضرت زہراؑ نے اس کا بھی جواب دیا، یہاں تک کہ اس نے دس سوالات کئے اور جناب فاطمہؑ نے دسوں کے جوابات دئیے پھر کثرت سوال سے اس عورت کو شرم دامن گیرہوئی اور کہنے لگی: دخترِ رسولؐ اب میں آپؑ کو زیادہ زحمت نہیں دیناچاہتی۔ حضرت فاطمہؑ نے فرمایا: (نہیں نہیں) تم کو جو پوچھنا ہو پوچھو تمہارا کیا خیال ہے اگر کسی کو ایک بھاری بوجھ کوٹھے پر لے جانے کے لئے کرایہ پر طے کیاجائے اور کرایہ ایک لاکھ دینار ہوتو کیا یہ بوجھ لے جانا اس کو گراں گزرے گا؟ عورت نے کہا: ہرگز نہیں! جناب فاطمہؑ نے فرمایا: میں نے اپنی ذات کو کرایہ پر دیا ہے کہ ایک مسئلہ کے جواب میں مجھے زمین سے لے کر آسمان تک بھرے ہوئے موتی دئیے جائیں اس لئے ظاہر ہے کہ مسئلہ کا جواب دینا مجھے گراں نہ گزرے گا۔ (بحارالانوارج۲، ص۳)
35. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خدایا مجھے میری نظر میں ذلیل کردے اور اپنی شان کو میری نظر میں عظیم کردے، مجھے اپنی طاعت کا اور وہ عمل جو تجھ کو راضی کرسکے اس کا الہام کردے اے ارحم الراحمین اس بات کو بتادے جو تیری ناراضگی سے بچاسکے۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۲۳)
36. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: میرے معبود جوتونے مجھے روزی دی ہے اس پر مجھے قناعت (بھی) عطافرما، اور جب تک مجھے باقی رکھ ، مجھے (اپنے دامنِ رحمت میں) چھپائے رکھ اور عافیت عطاکر اور جب مجھ مجھے موت دے تو مجھے بخش دے اور میرے اوپر رحم فرما، میرے خدا جس چیز کو تونے میرے مقدر میں نہیں لکھا اس کے حصول میں میری مدد نہ کر اور جو چیز میرے مقدر میں لکھ دی ہے اس کے حصول میں میرے لئے آسانی پیدا کر۔(اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۲۳)
37. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: میرے معبود، میرے والدین کو اور جن کے میرے اوپر احسان ہوں ان کو بہترین جزا مرحمت فرما میرے خدا جس مقصد کے لئے تونے مجھے پیداکیا ہے اس کے لئے فراغت وفرصت دے اورجس چیز کی کفالت کا تونے وعدہ کیا ہےاس میں مجھے مشغول وسرگرم نہ فرما، (میرےمعبود) میرے اوپر عذاب نہ کر جبکہ میں تجھ سے توبہ واستغفار کرتی ہوں اور مجھے (اپنی جنت سے) محروم نہ کر جبکہ میں تجھ سے سوال کرتی ہوں۔ (اعیان الشیعہ، طبع جدیدج۱ ص۳۲۳)
38. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: رسولِ خدا (ص) کا مرثیہ کہاہے: جوشخص ،محمدؐ کی قبر کی مٹی سونگھ لے اور وہ مدّتِ دراز تک خوشبو نہ سونگھے تو اس کا بھلا کیا ہوگا؟ (یعنی آخرعمر تک اس کو پھر کسی خوشبو کی ضرورت نہ ہوگی) میرے اوپر مصائب برسائے گئے ہیں کہ اگروہ دنوں پر برسائے جاتے توتاریک رات بن جاتے۔ (اعلام النساء، ج۴، ص۱۱۳)
39. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: غبارغم نے فضائے آسمان کوگھیرلیا، سورج کو گہن لگ گیا، دن تاریک ہوگیا
پوری زمین رسولِ خدا (ص) کے انتقال کے بعد ان کے غم میں لرزہ براندام ہے
شرق وغرب عالم کو آنحضرت (ص) پر گریہ کرناچاہئیے ، قبیلہ مضراور یمن کے لوگوں کو گریہ کناں ہوناچاہئیے
کوہِ عظیم کو ان کے جودوسخا پر، اور کعبہ اور اس کے رکنوں کو روناچاہئیے
اے خاتم رسولاں آپ(ص) کی روشنی دنیاوالوں کے لئے مبارک ہے قرآن کے نازل کرنے والے کی رحمت آپ(ص) پر نازل ہو۔ (اعلام النساء، ج۴، ص۱۱۳)
40. حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: آپ(ص) کے بعد فتنوں نے سراٹھایا، اور گوناگوں صدائیں بلند ہوئیں، اگر آپ(ص) موجود ہوتویہ تمام اختلافات رونما نہ ہوتے ۔ آپ(ص) کا ہم سے جدا ہونا ایسا ہی ہے جیسے خشک زمین پانی سے محروم ہوجائے۔ آپ(ص) کی قوم کے حالات اختلال پذیر ہوگئے۔ لہٰذا ان کو دیکھئے اور اپنی نظروں کے سامنے رکھئیے۔ (اعلام النساء، ج۴، ص۱۲۲)