امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب (ع) کی چالیس احادیث
1. امام علی (ع) نے فرمایا: جس نے اپنے کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا۔ (غررالحکم۷۷حدیث ۳۰۱)
2. امام علی (ع) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے محمد(ص) کو نبی برحق بنا کربھیجا تاکہ وہ لوگوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر خدا کی عبادت کرائیں، بندوں کے عہدوپیمان سے خارج کرکے خدا کے عہدوپیمان کے بندھن میں باندھ دیں، بندوں کی اطاعت چھوڑ کر خدا کی اطاعت میں لگ جائیں، بندوں کی ولایت سے خارج ہوکر خدا کی ولایت میں داخل ہوجائیں۔ (فروع کافی،ج۸،ص۳۸۶)
3. امام علی (ع) نے فرمایا: جوشخص بھی قرآن کے ساتھ نشست وبرخاست رکھےگا ، اس کے پاس سے جب بھی اٹھےگااس کی کچھ چیزوں میں زیادتی حاصل ہوگی اور کچھ چیزوں میں کمی ہوگی، ہدایت میں زیادتی ہوگی، جہالت واندھے پن کمی ہوگی۔ اس بات سے آگاہ ہوجاؤ کہ قرآن حاصل کرنے کے بعد کسی کو فقر حاصل نہ ہوگا اور قرآن کے بغیر کسی کو کوئی غنا حاصل نہ ہوگا۔ (الحیاۃ،ج۲،ص۱۰۱)
4. امام علی (ع) نے فرمایا: جوشخص کسی قوم کے (کسی) فعل پر راضی ہووہ اس شخص کی مانند ہے جو اس فعل میں داخل (اوراس کا کرنےوالا) ہواور جو شخص باطل کام میں شریک ہوتاہے وہ دُوگنا کرتاہے۔ (۱) ایک توخود عمل کا گناہ (۲) دوسرے اس فعل پر راضی ہونے کاگناہ۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، قصارا لحکم۱۵۴،ص۴۹۹)
5. حضرت علی (ع) سے ایمان کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ (ع) نے فرمایا: ایمان چارستونوں پر قائم ہے، 1۔ صبر 2۔ یقین 3۔عدالت 4۔ جہاد اور صبر کےچار شعبے ہیں، شوق، خوف، زہد، انتظار، پس جس کو جنت کاشوق ہےوہ سرکش خواہشات سے کنارہ کش رہتاہے اور جوآتشِ دوزخ سے ڈرتاہے وہ گناہوں سے بچتاہے اور جو دنیا سے زہد اختیار کرتاہےوہ مصیتوں اور ناگوار چیزوں کوہیچ سمجھتاہےاور جوموت کا انتظار کرتاہے وہ نیک کاموں کے لئے جلدی کرتاہے۔
جہاد کی بھی چارقسمیں ہیں ق1- امربمعروف 2۔ نہی ازمنکر 3-میدانِ جنگ میں سچائی 4۔ بدکاروں سے دشمنی۔ لہٰذا جوشخص امربمعروف کرتاہے وہ مومنین کی پشت مضبوط کرتاہے اور جونہی از منکر کرتاہے وہ کافروں کی ناک رگڑتاہے، جومیدانِ جہاد میں واقعی مقابلہ کرتاہےوہ اپنا فریضہ انجام دیتاہے، جو بدکاروں کودشمن رکھتاہے اور خدا کے لئے ان سے ناراض رہتاہےخدا بھی اس کی وجہ سے غصہ کرتاہے اور قیامت میں اس کو خوش کردیتاہے۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، قصارا لحکم۳۱،ص۴۷۳)
6. امام علی (ع) نے فرمایا: جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک ایسا دروازہ ہے جس کو خدا نے اپنے مخصوص اولیاء کے لئے کھولا ہے اور یہ (جہاد) تقویٰ کا لباس ہے اور خدا کی مضبوط زرہ ہے اور بھروسہ والی سپر ہے جو اس کو اعراض کی وجہ سے چھوڑدے خدا اس کو ذلت کا لباس پہنائے گا۔(نہج البلاغہ،صجی صالح، خطبہ ۲۷،ص۶۹)
7. امام علی (ع) نے فرمایا: فتنوں کی پیدائش کا آغاز خواہشات نفس کی پیروی اور ایسےاختراعی احکام ہوتے ہیں جن میں قرآن کی مخالفت ہوتی ہے اور کچھ لوگ آئینِ حق کے خلاف لوگوں کی حمایت پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اگر باطل مکمل طور سے حق سے جدا ہوجائے تو متلاشی حق پر کبھی حق مخفی نہیں رہ سکتااور اگر حق باطل کے التباس سے خالص ہوجائے تو دشمنوں کی زبانیں مگر ہوتایہ ہے کہ تھوڑا سا حق اور تھوڑا سا باطل لے کر مخلوط کرلیتے ہیں اور یہیں سے شیطان اپنے دوستوں پر غالب آجاتاہے اور صرف وہی لوگ نجات پاتے ہیں جن پر خدا کی رحمت شاملِ حال ہوجائے۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، خطبہ ۵۰،ص۸۸)
8. امام علی (ع) نے فرمایا: دینِ خدا کو لوگوں سے نہیں پہچاننا چاہئیے بلکہ حق کی علامتوں سے پہچاننا چاہئیے بنابرایں (پہلے) حق کو پہچانو ، اس کےبعد صاحبِ حق کو پہچان ہی لوگے۔ (بحار،ج۶۸،ص۱۲۰)
9. امام علی (ع) نے فرمایا: (خبردار) دوسروں کے غلام نہ بنوجبکہ خدا نے تم کو آ زاد بنایاہے۔ (غررالحکم ،فصل۸۵، حدیث۲۱۹)
10. امام علی (ع) نے فرمایا: امر بمعروف اور نہی از منکر (یہ دونوں) موت کو جلدی قریب نہیں آنے دیتےاور روزی میں کمی نہیں ہونے دیتے بلکہ ثواب کودوگناکرتے ہیں اور اجر کو عظیم کرتے ہیں اور ان دونوں میں (امربمعروف ونہی ازمنکرمیں) افضل حاکم ظالم کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے۔ (غررالحکم ،فصل۸، حدیث۲۷۲)
11. امام علی (ع) نے فرمایا: اچھا برتاؤ جس کی اصلاح نہ کرسکے اچھی جزاء اس کی اصلاح کرسکتی ہے۔ (غررالحکم ،فصل۷۷، حدیث۵۴۷)
12. امام علی (ع) نے فرمایا: دنیا کے دوآدمیوں نے میری کمر توڑدی ہے 1۔ گنہگارچرب زبان شخص نے 2۔ تیرہ دل عبادت گزارشخص نے ، پہلے نے اپنی زبان سے لوگوں کو اپنے فسق وفجور کے اظہار سے روک کر اور دوسرے نے اپنی عبادت کو اپنی جہالت کا پردہ بناکر، لہٰذا تم لوگ بدکار علماء اور جاہل عبادت گزاروں سے بچو ، اس لئے کہ یہی لوگ ہر مفتون کے لئے فتنہ ہیں اور میں نے خود رسولِ خدا (ص) سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: اے علی (ع) میری امت کی ہلاکت ہر چرب زبان منافق کے ہاتھوں ہوگی۔ (روضۃ الواعظین،ص۶)
13. امام علی (ع) نے فرمایا: تمہاری نظر میں بدکار اور نیکوکار ہرگز برابر نہ ہونا چاہیئے کیونکہ ایسی صورت میں نیک لوگوں کی نیک کاموں سے بے رغبتی پیداہوگیااور بدکاروں کو بُرے کاموں کی تشویق پیدا ہوگی۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،مکتوب ۵۳ ، ص۴۳۰)
14. امام علی (ع) نے فرمایا: لوگ اپنی دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے دینی امور میں سے کسی چیز کو ترک نہیں کرتے جب تک خدا ان کے لئے اس سے مضر تر کوئی چیز ان کےسامنے نہ کھول دے۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،قصارالحکم ۱۰۶ ، ص۴۸۷)
15. امام علی (ع) نے فرمایا: اندھے کی بینائی کی انتہا دنیا ہے، وہ دل کا اندھا اس کے ماسویٰ کچھ دیکھتاہی نہیں، لیکن شخص بصیر اور روشن ضمیر دنیا کو بڑی گہری نظر سے دیکھتاہے اور اس کو محدود وناپائیدار سمجھتاہے اور سمجھتاہے کہ اس کے ماورا ہے اس لئے شخص بصیر دنیا سے کوچ پر آمادہ ہے لیکن دل کے اندھے نے اپنی آنکھوں کو اس پر جمارکھا ہے شخص بصیر اس سے زیادہ توشہ ساتھ لے لیتاہے لیکن دل کا اندھااس سے زاد وتوشہ کو جمع کررکھتاہے۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،خطبہ۱۳۳، ص۱۹۱)
16. امام علی (ع) نے فرمایا: لوگوں کے ساتھ معاشرت کرنے میں اپنے کو میزان قرار دو لہٰذا جو اپنے لئے پسند کرو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو، اور جوچیز اپنے لئے ناپسند کرو دوسروں کے لئے بھی ناپسندکرو، دوسروں پر (اسی طرح) ظلم نہ کرو جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر ظلم نہ کیاجائے، دوسروں پر اسی طرح احسان کروجس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر احسان کیاجائے، اپنے لئے جن چیزوں کو بُرا سمجھتے ہو دوسروں کے لئے بھی ان کو ناپسند کرو، جن باتوں سے لوگوں کی تم راضی ہوتے ہوانہیں باتوں سے لوگوں کو بھی راضی کرو، جوبات نہ جانتے ہواس کو نہ کہو، بلکہ جن باتوں کو جانتے ہوان میں سے بھی سب کو نہ کہو، اس بات کو نہ کہوجس کے بارے میں تم یہ ناپسند کروکہ تمہارے بارےمیں کہی جائے۔ (تحف العقول ص۷۴)
17. امام علی (ع) نے فرمایا: تیرے تین دوست ہیں اور تین ہی دشمن ہیں ، دوست تویہ ہیں : 2۔ تیرا دوست 2۔ تیرے دوست کا دوست 3۔ تیرے دشمن کا دشمن، اور تیرے دشمن یہ ہیں : 1۔ تیرادشمن 2۔ تیرے دوست کا دشمن 3۔ تیرے دشمن کا دوست ۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،قصارالحکم ۵۹۰ ، ص۵۲۷)
18. امام علی (ع) نے فرمایا: جو زیادہ باتیں کرےگا اس سے غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی اور جس کی خطائیں زیادہ ہونگی اس کی شرم وحیاء کم ہوگی اور جس کی شرم کم ہوگی اس کا تقویٰ کم ہوگا اور جس کا تقویٰ کم ہوگا اس کا قلب مردہ ہوجائےگا اور جس کا قلب مردہ ہوجائے گا وہ دوزخ میں جائے گا۔ (تحف العقول ص ۸۹)
19. امام علی (ع) نے فرمایا: یہ نہ دیکھو کس نے کہا ہے یہ دیکھو کیا کہاہے۔ (غررالحکم ، فصل۸۵، حدیث ۴۰)
20. امام علی (ع) نے فرمایا: تمام نیکیاں تین باتوں میں جمع کردی گئی ہیں، 1۔ نگاہ 2۔ خاموشی 3۔ گفتگو، جس نگاہ میں عبرت نہ ہو اس میں (ایک قسم کی) بھول ہے اور جس خاموشی میں تفکر نہ ہو وہ غفلت ہے اور جس کلام میں یادِ خدا نہ ہو وہ بیہودہ ہے لہٰذا خوشا بحال اس کا جس کی نگاہ میں عبرت ہو ، خاموشی میں تفکر ہو، گفتگو میں یادِ خدا ہو اپنے گناہوں پر روتاہو اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں۔ (تحف العقول ص ۲۱۵)
21. امام علی (ع) نے فرمایا: یقیناً جہاں بیٹے کا باپ پر حق ہے (اسی طرح) باپ کا بیٹے پر حق ہے، باپ کا حق بیٹے پر یہ ہے کہ معصیت خدا کے علاوہ پرچیز میں باپ کی اطاعت کرے اور بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ بیٹے کا اچھا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے اور اس کو قرآن کی تعلیم دے۔(نہج البلاغہ،صجی صالح،قصارالحکم ۳۹۹، ص۵۴۶)
22. امام علی (ع) نے فرمایا: جوشخص دنیا کے ساتھ سچائی کے ساتھ برتاؤ کرے دنیا اس کےلئے سچائی اور راستی کی جگہ ہے اور جو دنیا سے کچھ سمجھنا چاہے دنیا اس کے لئے دارِ عافیت ہے اور جو دنیا سے توشہ لینا چاہے دنیا اس کے لئے جائے ثروت ہے (دنیا) انبیاء ِ خدا کی سجدہ گاہ ہے، وحی الٰہی کے نزول کی جگہ ، فرشتوں کے نماز کی جگہ ، اولیائے خداکی تجارت گاہ ہےانہیں حضرات نے اسی دنیا میں اکتساب ِ رحمت کیا اور نفع میں جنت کمائی، پس کون اس دنیا کی مذمت کرتاہے؟ حالانکہ اس نے اپنی جدائی کا اعلان کردیا ، اپنے فراق کو بتادیا، اور اپنے مرنے کی اطلاع دے دی ! اپنی خوشحالی سے (ان کو) خوشحالی کی طرف اور اپنی بلاؤں سے (ان کو) بلاؤں کی طرف متوجہ کردیا (یہ دنیاکبھی) ڈراتی ہے کبھی ہوشیار کرتی ہے ، کبھی شوق دلاتی ہے کبھی خوف دلاتی ہے، اے وہ شخص جو دنیا کی بُرائی کرتاہے حالانکہ تو خود دنیا کی فریب کاریوں کا فریفتہ ہے دنیا نے تجھ کو کب دھوکہ دیا؟ کیا اس وقت جب تیرے بزرگوں کو دامن فنا وبوسیدگی کے حوالہ کردیا؟ یا جب تیری ماؤں کو زیرِ خاک پنہاں کردیا؟ (بحارالانوار،ج۸۸، ص۴۱۸)
23. امام علی (ع) نے فرمایا: اے لوگو میں تمہارے بارے میں دو چیزوں سے بہت ڈرتاہوں ،۱۔خواہشوں کی پیروی ۲۔طولانی آرزو، خواہشوں کی پیروی حق سے روک دیتی ہے اور طویل آرزوئیں آخرت کو فراموش کرادیتیں ہیں۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،خطبہ ۴۲، ص۸۳)
24. امام علی (ع) نے فرمایا: جو اپنے باطن کی اصلاح کرتاہے خدا اس کے ظاہر کی اصلاح کرتاہے ، جو اپنے دین کے لئے کام کرتاہے خدا اس کی دنیا کے لئے کفایت کرتاہے جو اپنے اور اپنے خدا کے درمیان اصلاح کرلیتاہے خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کردیتا ہے۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،قصارالحکم ۴۲۳، ص۵۵۱)
25. امام علی (ع) نے فرمایا: (خبردار) اپنی مشغولیت زیادہ تر اپنے اہل وعیال میں مبذول نہ رکھو کیونکہ تیرے اہل وعیال اگر خداکے دوست ہیں تو خدا اپنے دوستوں کو ضائع وبرباد نہیں کرتااور اگروہ لوگ خدا کے دشمن ہیں تو تمہاری مشغولیت اور تمہاری توجہ دشمنانِ خدا کی طرف کیوں ہو؟ (نہج البلاغہ،صجی صالح،قصارالحکم ۳۵۲، ص۵۲۶)
26. امام علی (ع) نے فرمایا: ہر شخص کی قدروقیمت ان نیکیوں سے وابستہ ہوتی ہے جن کو وہ انجام دیتاہے۔ (بحارالانوار،ج ۷۸، ص۳۷)
27. امام علی (ع) نے فرمایا: تمہاری آبروجامد ہے، مگر (لوگوں سے) سوال کرنا اس کو قطرہ قطرہ کرکے بہادیتاہے اب یہ دیکھنا تمہاراکام ہے کہ کس کے سامنے آبروریزی کرتے ہو۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،کلمات قصار۳۴۶، ص۵۳۵)
28. امام علی (ع) نے فرمایا: اُس فرزندِ آدم کو فخرکرنے کی کیا تُک ہے جس کی ابتداء نطفہ ہو اور انتہا مردہ ہو۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،قصارالحکم ۴۵۴، ص۵۵۵)
29. امام علی (ع) نے فرمایا: کیا میں تم کو کامل فقیہ کی خبر دوں (توسنو) حقیقی اور کامل فقیہ وہی ہے جو لوگون کو خدا کی معصیت کی اجازت نہ دے اور نہ ان کو خدا کی رحمت سے مایوس کرے اور مکر ِ خدا (نامرئی ومخفی عذابِ الٰہی ) سے بے خوف نہ کرے قرآن سے بے رغبتی کی وجہ سے قرآن کو نہ چھوڑ دے جس عبادت کے اندر فہم وادراک نہ ہواس میں کوئی خیر نہیں ہے اور جس علم میں غوروفکر نہ ہو اس میں (بھی) کوئی خیر نہیں ہے، آیاتِ قرآن کی تلاوت میں بھی کوئی خیر نہیں ہے اگر اس میں تدبّر وتفکر نہ ہو۔ (بحار الانوار، ج۷۸،ص۴۱)
30. امام علی (ع) نے فرمایا: غیرت مند آدمی کبھی زنا نہیں کرتا۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،کلمات قصار۳۰۵، ص۵۲۹)
31. امام علی (ع) نے فرمایا: یقیناً پرہیزگار لوگوں نے جلد گزجانے والی دنیا اور ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت سے فائدہ اٹھالیا، اہلِ دنیاکے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے حالانکہ اہلِ دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے ۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح،کلمات قصار۷۲۷، ص۳۸۳)
32. امام علی (ع) نے فرمایا: انسان کو ایمان کا مزہ اس وقت تک نہیں ملتاجب تک وہ جھوٹ ترک نہ کردے حقیقی طورسے بھی اور مزاح کے طور سے بھی۔۔(اصول کافی،ج۲، ص۳۴۰)
33. امام علی (ع) نے فرمایا: اگرتم نے اپنے دین کو اپنی دنیا کا تابع بنادیاتو دین ودنیا دونوں کھوبیٹھے اور آخرت میں گھاٹے میں رہوگے اور اگر اپنی دنیا کو دین کا تابع بنالیاتو دین ودنیا دونوں حاصل کرلیا اور آخرت میں بھی کامیاب لوگوں میں ہوں گے۔ ۔(غررالحکم، فصل۱۰،حدیث۴۴، ص۴۵)
34. امام علی (ع) نے فرمایا: دنیا سانپ جیسی ہے کہ اس کا چھوناتونرم وملائم ہے مگر اس کے اندر زہرِ ہلاہل ہے، بےخبر نادان اس کا دلدادہ ہوجاتاہے مگر ہوش مند عاقل اس سے ڈرتاہے۔(نہج البلاغہ،صجی صالح،کلمات قصار۱۱۹، ص۴۸۹)
35. امام علی (ع) نے فرمایا: اے کمیل ابن زیاد: قلوب بھی ظروف کی مانند ہیں (جیسے) سب سے بہتر ظرف وہ ہے جو سب سے زیادہ حفاظت کرنے والاہو، اس لئے جو کچھ میں تم کو بتاتاہوں اس کویاد کرلو، لوگوں کی تین قسمیں ہیں: 1۔ علمائے الٰہی 2۔ طلاب علوم جو نجات کے راستے پر ہیں 3۔ احمق بے سروپاجوہرآوازکے پیچھے دوڑجاتے ہیں اور ہر ہوا کے ساتھ حرکت کرتےہیں یہ وہی ہیں جوعلم کے نورسے کبھی روشن نہیں ہوئے اور کسی مضبوط ستون کی پناہ حاصل نہیں کی۔ ۔(نہج البلاغہ،صجی صالح،کلمات قصار۱۴۷، ص۴۹۵)
36. امام علی (ع) نے فرمایا: میں تم کو پانچ ایسی چیزوں کی وصیت کرتاہوں کہ اگر ان کے لئے تم کو سفر کرناپڑے تو کرو،1۔ تم میں سے کوئی اپنے رب کے علاوہ کسی اور سے کوئی رجاء (امید) نہ رکھے۔ 2۔ تم میں سے کوئی اپنے گناہوں کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرے۔ 3۔تم میں سے اگرکسی سے کوئی سوال کیاجائے اور وہ نہ جانتاہوتو “میں نہیں جانتا” کہنے سے ہرگز نہ شرمائے۔ 4۔تم میں سے کوئی بھی اگر کسی چیز کو نہیں جانتاتو اس کے سیکھنے سے نہ شرمائے۔ 5۔ تمہارے لئے صبر ضروری ہےاس لئے کہ صبر کا ایمان سے وہی رشتہ ہے جو سر کا جسم سے ہے جس جسم کے ساتھ سر نہ ہواس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسی طرح اس ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہےجس کے ساتھ صبر نہ ہو۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، قصارالحکم۸۲ ، ص۴۸۲)
37. امام علی (ع) نے فرمایا: لوگوں کے ساتھ اس طرح گھل مل کے رہو کہ اگر مرجاؤ تو تم پہ گریہ کریں اور اگر زندہ رہو توتم سے عشق کی طرح محبت کریں۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، قصارالحکم۱۰ ، ص۴۷۰)
38. امام علی (ع) نے فرمایا: خود عمل کئے بغیر لوگوں کو عمل کی دعوت دینا ایسا ہی ہے جیسے بغیر حلپّہ کے کمان سے تیر چلانا۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، قصارالحکم۳۳۷، ص۵۳۴)
39. امام علی (ع) نے فرمایا: جنت عمل سے حاصل ہوتی ہے امل (امید) سے نہیں حاصل ہوتی۔ (غررالحکم، فصل۱۸ ، حدیث۱۱۹)
40. امام علی (ع) نے فرمایا: درسِ عبرت توبہت ہیں مگر عبرت حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ۔ (نہج البلاغہ،صجی صالح، قصارالحکم۲۹۷۰ ، ص۵۲۹)