امام حسین (ع) کی چالیس احادیث
1. امام حسین (ع) نے فرمایا: (معبود) جو چیزیں اپنے وجودمیں تیری محتاج ہیں ان سے تیرے لیے کیونکر استدلال کیا جاسکتاہے؟ کیا کسی کے لیے اتنا ظہور ہے جو تیرے لیے ہے؟ تاکہ وہ تیرے اظہار کا ذریعہ بن سکے۔ (بھلا) تو غائب ہی کب تھا کہ تیرے لیے کسی ایسی دلیل کی ضرورت پڑے جو تیرے اوپر دلالت کرے؟ اور تُو کب دور تھا کہ آثار کے ذریعے تجھ تک پہونچاجاسکے؟ اندھی ہو جائیں وہ آنکھیں جو تجھے نہ دیکھ سکیں حالانکہ تو ہمیشہ ان کا ہم نشین تھا۔ (دعائے عرفہ، بحار الانوار، ج۹۸ ص۲۲۶)
2. امام حسین (ع) نے فرمایا: جس نے تجھے کھودیااس کو کیا ملا؟ اور جس نے تجھ کو پالیا کون سی چیز ہے جس کو اس نے نہیں حاصل کیا؟ جو بھی تیرے بدلے میں جس پر بھی راضی ہوا، وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔ (دعائے عرفہ، بحار الانوار، ج۹۸ ص۲۲۸)
3. امام حسین (ع) نے فرمایا: اس قو م کو کبھی فلاح حاصل نہیں ہوسکتی جس نے خدا کو ناراض کرکے مخلوق کی مرضی خریدلی۔ (مقتل خوارزمی، ج۱ ص۲۳۹)
4. امام حسین (ع) نے فرمایا: قیامت کے دن اسی کو امن وامان حاصل ہوگا جو دنیا میں خدا سے ڈرتارہاہو۔ (بحار الانوار، ج۴۴ ص۱۹۲)
5. امام حسین (ع) نے فرمایا: خداوندِ عالم نے امر بہ معروف ونہی از منکر کو اپنے ایک واجب کی حیثیت سے پہلے ذکر کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ دونوں فریضے (امر بہ معروف ونہی از منکر) ادا کیے گئے اور قائم ہوگئے تو سارے فرائض خواہ سخت ہوں یا نرم، قائم ہوجائیں گے کیونکہ یہ دونوں انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور صاحبان حقوق کے حقوق ان کی طرف پلٹانے والے ہیں اور ظالموں کو مخالفت پر آمادہ کرنے والے ہیں۔ (تحف العقول، ص۲۳۷)
6. امام حسین (ع) نے فرمایا: لوگو! رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے: جو دیکھے کسی ظالم بادشاہ کو کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے۔ پیمان الٰہی کو توڑدیا ہے، سنت رسول (ص) کی مخالفت کرتاہے، بندگان خدا کے ظلم وگناہ کرتاہے اور پھر بھی عمل سے اور نہ قول سے اس کی مخالفت کرتاہے، تو خدا پر واجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اس کوڈال دے۔ (مقتل خوارزمی، ج۱ ص۲۳۴)
7. امام حسین (ع) نے فرمایا: لوگ دنیا کے غلام ہیں، دین ان کی زبانوں کے لیے ایک چٹنی ہے، جب تک (دین کے نام پر) معاش کا دارومدار ہے دین کا نام لیتے ہیں لیکن جب مصیبتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو دینداروں کی تعداد بہت کم ہوجاتی ہے۔ (تحف العقول، ص۴۴۵)
8. امام حسین (ع) نے فرمایا: جو شخص خدا کی نافرمانی کرکے اپنا مقصد حاصل کرناچاہتاہے، اس کے حصول ومقصد کا راستہ بند ہوجاتاہےاور بہت جلد خطرات میں گھِرسکتاہے۔ (تحف العقول، ص۲۴۸)
9. امام حسین (ع) نے فرمایا: کیا تم نہیں دیکھ رہے ہوکہ حق پر عمل نہیں ہورہاہے، اور باطل سے دوری نہیں اختیار کی جارہی ہے۔ ایسی صورت میں مومن کو حق ہے کہ لقائے الٰہی کی رغبت کرے۔ (تحف العقول، ص۲۲۵)
10. امام حسین (ع) نے فرمایا: میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں۔ (تحف العقول، ص۲۴۵)
11. امام حسین (ع) نے فرمایا: تمام لوگوں سے زیادہ تو تمہاری مصیبت ہے اس لیے کہ علما کے مقامات کو تم سے چھین لیا گیا ہے اور تم مغلوب بنا دیے گئے ہو، کاش تم سمجھ سکتے کہ تمہارے ساتھ ایسا کیا گیا ہے اس لیے کہ (اسلامی نظریے کے مطابق) تمام امور کی انجام دہی، بندوبست اور احکام کا اجرا ان علما کے ہاتھوں ہوناچاہیے جو خدا شناس ہوں، حلال وحرام خداکے امین ہوں مگر (بنی امیہ نے) تم سے یہ مقام ومنزلت چھین لی۔ اور یہ صرف اس لیے چھینی کہ واضح دلیل وبرہان کے بعد بھی تم حق سے کنارہ کش رہے اور سنت میں اختلاف کرتے رہے۔ اگر تم اذیتوں پرصبر کرلیتے اور راہِ خدا میں مال خرچ کردیتے تو کارہائے خدا (یعنی مسلمانوں کے امور کا انتظام) تمہارے ہاتھوں میں ہوتا۔ تم احکام صادر کرتے اور معاملات تمہاری طرف پلٹائے جاتے لیکن تم نے تو اپنی جگہ پر ظالموں کو مسلط کردیا۔ اور امورِ خدا کو ان کے سپرد کردیا۔ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں، خواہشات نفسانی کے راستہ پر چلتے ہیں ان کو ان چیزوں پر ” تمہارے موت سے فرار اور فنا ہونے والی زندگی سے پیار نے” مسلط کیا ہے۔ (تحف العقول، ص۲۳۸)
12. امام حسین (ع) نے فرمایا: خدایا تُو جانتاہے کہ میرا قیام (جہاد) نہ تو سلطنت کے لیے ہے اور نہ حصول ِ دولت کے لیے ہے بلکہ ہم تیرے دین کے معالم کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور تیرے شہروں میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور تیرے مظلوم بندوں کے لیے امن وامان قائم کرناچاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ تیرے فرائض و سنن واحکام پر عمل کیا جائے۔ (تحف العقول، ص۲۳۹)
13. امام حسین (ع) نے فرمایا: میرا خروج نہ توکسی خود پسندی نہ اکڑ نہ فساد اور نہ ہی ظلم کے لیے ہے۔ میں نے تو صرف اپنے جد (ص) کی امت کی اصلاح کے لیے خروج کیا ہے۔ میں امر بہ معروف ونہی از منکر کرنا چاہتاہوں اور اپنے جد محمد رسول اللہ (ص) اور اپنے باپ علی (ع) ابن ابی طالب (ع) کی سیرت پر چلنا چاہتاہوں۔ (مقتل خوارزمی، ج۱ ص۱۸۸)
14. امام حسین (ع) نے فرمایا: اگر دنیا کو عمدہ اور نفیس شمار کیا جائے تو ثواب خدا کا گھر (آخرت) اس سے بھی بلندوبرتر ہے۔ اگر جسموں کو مرنے ہی کے لیے پیداکیاگیا ہے تو انسان کا راہِ خدا میں تلوار سے قتل ہوجانا بہت ہی افضل ہے۔ اگر روزی کی تقسیم مقدر پر ہے تو روزی کے لیے انسان کی معمولی حرص اچھی بات ہے۔
اگر مال کا جمع کرنا چھوڑ جانے کے لیے ہے تو پھر شریف آدمی چھوڑے جانے والے مال کے لیے کیوں بخل کرتاہے۔ (بحار الانوار، ج۴۴ص۳۷۴)
15. امام حسین (ع) نے فرمایا: اے آلِ ابوسفیان کے شیعو! اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور نہ تم لو گ معاد سے ڈرتے ہو تو (کم ازکم) دنیا ہی میں شریف بنو۔ (مقتل خوارزمی، ج۲ص۳۳)
16. امام حسین (ع) نے فرمایا: جولوگ خداکی عبادت کسی . چیز (جنت) کی خواہش کے لیے کرتے ہیں ان کی عبادت تاجروں کی عبادت ہے، اور جو لوگ خدا کی عبادت کسی چیز (دوزخ) کے خوف سے کرتے ہیں ان کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے۔ اور جو لوگ خداکی عبادت شکر کے عنوان سے کرتے ہیں وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے۔ (تحف العقول، ص۲۴۶)
17. امام حسین (ع) نے فرمایا: لوگوں کا حاجتوں کا تم سے متعلق ہونا یہ تمہارے اوپر خدا کی بہت بڑی نعمت ہے لہٰذا نعمتوں کو (یعنی صاحبانِ حاجت کو) رنج نہ پہنچاؤکہیں ایسا نہ ہوجائے کہ وہ نعمت نقمت سے بدل جائے (نقمت کے معنی عذاب اور بلا کے ہیں)۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۱)
18. امام حسین (ع) نے فرمایا: اے لوگو! خدا نے جن باتوں سے اپنے اولیا کو وعظ فرمایا ہے تم بھی ان سے عبرت حاصل کرو (خدا کا وعظ یہ ہے کہ) اس نے اہلِ کتاب کے علما کی مذمت کی ہے جہاں پر ارشاد ہے: ان کو اللہ والے اور علما جھوٹ بولنے سے کیوں نہیں روکتے (سورہ مائدہ آیت ۶۴)۔ نیز ارشاد ہے: بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر تھے ان داؤد (ع) اور عیسیٰ (ع) ابن مریم (س) کی زبانی لعنت کی گئی ہے۔ اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی۔ “کیونکہ ان لوگوں نے فرمانی کی اور حد سے بڑھ گئے تھے اور کسی برے کام سے جس کو ان لوگوں نے کیا تھا باز نہیں آ تے تھے۔ اور جو کام یہ کرتے تھے وہ بہت برا تھا۔
خداوندِ عالم نے ان علما کی سرزنش اس لیے کی ہے کہ یہ لوگ فساد وبرائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے لیکن لوگوں سے ملنے والے مال کی طمع اور لوگوں کے خوف سے ان کو نہی از منکر نہیں کیاکرتے تھے حالانکہ خدا کا ارشادہے! لوگوں سے (ذرا بھی) نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ (سورہ مائدہ آیت ۴۵) نیز ارشاد ہوتاہے: ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں ان میں سے بعض کے رفیق ہیں جو امر بمعروف ونہی از منکر کرتے ہیں۔ (سورہ توبۃ آیت ۷۸) (تحف العقول، ص۲۳۷)
19. امام حسین (ع) نے فرمایا: جو لوگوں کی خوشنودی چاہے حالانکہ اس فعل سے خدا ناراض ہو تو خدا اس کو لوگوں کے حوالہ کردیتاہے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۶)
20. امام حسین (ع) نے فرمایا: جس کا مددگار خدا کے علاوہ کوئی نہ ہو خبردار اس پر ظلم نہ کرنا۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۱۸)
21. امام حسین (ع) نے فرمایا: جو تم کو دوست رکھے گا (برائیوں سے) روکے گا۔ اور جو تم کو دشمن رکھے گا (برائیوں پر) ابھارے گا۔ ۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۸)
22. امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل صرف حق کی پیروی کرنے سے کامل ہوتی ہے۔ ۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۷)
23. امام حسین (ع) نے فرمایا: اہل فسق وفجور کی صحبت بدنامی کی بات ہے۔ ۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۲)
24. امام حسین (ع) نے فرمایا: خوف خدا میں گریہ وزاری کرنا دوزخ سے نجات کا زریعہ ہے۔ ۔ (مستدرک۲/۲۹۴)
25. ایک شخص سید الشہدا (ع) کے پاس آکر بولا: میں ایک گنہگار شخص ہوں اور معصیت پر صبر نہیں کرسکتا لہٰذا مجھے کچھ وعظ فرمائیے: امام حسین (ع) نے فرمایاَ: پانچ کام کرلو اس کے بعد جوگناہ چاہو کرو۔ ۱) خدا کا رزق نہ کھاو پھر جوچاہے کرو۔ ۲) خدا کی حکومت سے نکل جاو، پھر جو جی میں آئے کرو۔ ۳) ایسی جگہ تلاش کرلو جہاں تم کو خدا نہ دیکھ سکے وہاں جیسا گناہ چاہوکرو۔ ۴) جب ملک الموت قبض روح کے لیے آئیں تو ان کو اپنے پاس سے بھگادو اس کے بعد جو گناہ چاہو کرو۔ ۵) جب مالک جہنم تم کو جہنم میں داخل کرناچاہے تو جہنم میں نہ جاو اور جو گناہ چاہو کرو۔ ۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۶)
26. امام حسین (ع) نے فرمایا: جس فعل پر عذرخواہی کرناپڑے وہ کام ہی نہ کرو اس لیے کہ مومن نہ براکام کرتاہے نہ عذرخواہی کرتاہے اور منافق روز برائی کرتاہے اور عذر خواہی کرتاہے۔ ۔ (تحف العقول، ص۲۴۸)
27. امام حسین (ع) نے فرمایا: جلد بازی (ایک قسم کی) بیوقوفی ہے۔ ۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۲)
28. امام حسین (ع) نے فرمایا: جب تک آنے والا، سلام نہ کرے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دو۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۱۷)
29. امام حسین (ع) نے فرمایا: غیر اہل فکر سے بحث ومباحثہ اسباب جہالت کی علامت ہے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۱۹)
30. امام حسین (ع) نے فرمایا: عالم کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنی باتوں پر انتقاد کرتاہے اور اقسام نظر کی حقیقتوں پر آگاہی رکھتاہے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۱۹)
31. امام حسین (ع) نے فرمایا: انسانی اقدار کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرو، اور (معنوی) خزانوں کے لیے جلدی کرو۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۱)
32. امام حسین (ع) نے فرمایا: جس نے سخاوت کی اس نے سیادت حاصل کی، جس نے بخل کیا وہ ذلیل ہو۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۱)
33. امام حسین (ع) نے فرمایا: سب سے زیادہ سخی وہ ہے جو ان کو بھی دے جن کو ان سے کوئی امید نہ ہو۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۱)
34. امام حسین (ع) نے فرمایا: جو کسی مومن کی کرب وبے چینی کو دور کرے۔ خدا اس کی دنیا وآخرت کی بے چینی کو دور کرتاہے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۱)
35. امام حسین (ع) نے فرمایا: اگر تم کسی کو دیکھوکہ وہ لوگوں کی غیبت کرتاہے تو کوشش کرو کہ وہ تم کو نہ پہچان سکے۔ (بلاغۃالحسین (ع)، الکلمات القصار۴۵)
36. امام حسین (ع) نے فرمایا: حضرت امام حسین (ع) سے پوچھا گیا مالداری کیا ہے؟ فرمایا: آرزووں کاکم ہونااور جتنا اس کے لیے کافی ہوجائے اس پر راضی رہنا۔ (معانی الاخبار، ص۴۰۱)
37. امام حسین (ع) نے فرمایا: اپنی حاجت صرف تین اشخاص سے بیان کرو۔ ۱) دیندار ۲) جوانمرد ۳) کسی اہل شخصیت سے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۱۸)
38. امام حسین (ع) نے فرمایا: جس کام کو کرناچاہتے ہو، اس کو اس شخص کی طرح انجام دو جو یہ جانتاہے کہ ہر گناہ کی سزا ہے اور ہر نیکی کی جزاہے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۷)
39. امام حسین (ع) نے فرمایا: سلام کے ستر ثواب ہیں ۶۹ ثواب تو سلام کرنے والے کو ملتے ہیں اور ایک ثواب جواب دینے والے کو ملتاہے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۰)
40. امام حسین (ع) نے فرمایا: اپنے برادر (مومن) کے پسِ پشت وہی بات کہو جو تم کو پسند ہو کہ تمہارے پسِ پشت تمہارے بارے میں کہی جائے۔ (بحار الانوار، ج۷۸ ص۱۲۷)